01 Surah Fatiha Tauruf Dars Quran text & audio (download) |Previous Dars|Duroos List|Next Dars

بِسم اللّٰہ اَلرَحمٰن اَلرّحِیم

سورۃ الفاتحہ (تمہید)

درس قرانِ حکیم

مفکر قرآن علامہ غلام احمد پرویزؔ

آغازِ سخن بسلسلۂ درس قرآنِ حکیم کراچی 1950ء

عزیزانِ من! یہ پرویز کی آواز ہے ۔ میں اپنے مکان 25-Bگلبرگ 2‘ لاہور‘ پاکستان‘ سے بول رہا ہوں۔ آج اکتوبر 1979 کی 14 تاریخ ہے ۔میں آپ احباب سے مخاطب ہورہا ہوں‘ اس کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ میں قرآنِ کریم کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ میں نے اپنی پوری زندگی اس کتابِ عظیم کے سمجھنے اور سمجھانے میں بسر کی ہے۔ پہلے عام مروجہ تراجم کے انداز سے‘ اس کتاب کو سمجھنے کی کوشش کی‘ لیکن اس سے کچھ بات سمجھ میں نہ آئی‘ تو میں نے پھر اس انداز سے کہ جس میں خود اس کتاب نے اپنے متعلق کہا ہے کہ اس کو سمجھا جائے ‘اس کے سمجھنے کی کوشش کی۔ قریب پچاس سال سے میں اس کوشش میں مصروف ہوں۔ ٭(1) اس کے سمجھنے کے بعد مجھ پر یہ فریضہ عائد ہو گیا کہ: ’’دیکھا ہے جو کچھ میں نے‘ اوروں کو بھی دکھلا دوں‘‘۔ یہ فرمانِ خداوندی ہے۔ نبی اکرم سے فرمایا گیا تھا کہ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (5:67)خدا کی طرف سے جو تجھ پر نازل کیا جاتا ہے‘ اسے دوسروں تک بھی پہنچا دے۔ خدا کی طرف سے ان کا یہ نازل ہونا ‘نبی اکرم کی ذاتِ گرامی پر ختم ہو گیا لیکن قرآن کے نزول کے بعد یہ زندۂ جاوید کتاب قرآن کریم قیامت تک رہے گی۔ یہی فریضہ ہر اس شخص پر عائد ہوجاتا ہے جو قرآنِ کریم کو سمجھے اور دوسروں تک بھی پہنچائے۔

اس فریضہ کی ادائیگی کا آغاز تومیں نے اس سے بہت پہلے‘ دہلی اور شملہ میں ‘متفرق خطابات سے کر رکھا تھا‘ لیکن پاکستان بننے کےبعد٭(2) قرآن کے درس کا سلسلہ میں نے کراچی میں 1950 میں‘٭(3) شروع کیا۔ اس وقت قرآن کا یہ درس مسلسل نہیں تھا‘ مختلف موضوعات سامنے آتے تھے اور ہر موضوع کے متعلق قرآنِ کریم میں جو کچھ آیا ہے اپنی بصیرت کے مطابق میں اسے سامعین کے سامنے پیش کرتا تھا۔ یہ سلسلہ 1958 تک رہا جب تک میں کراچی میں رہا۔

لاہور میں ہفتہ وار درسِ قرآنِ حکیم کا آغاز

جب میں 1958ء میں کراچی سے منتقل ہو کرلاہور آیا تو اسی سال یعنی 1958 میں‘ میں نے درسِ قرآنِ کریم کا سلسلہ یہاں‘ خود اپنے مکان پر‘ جاری رکھا۔ یہ ہفتہ واری درس تھا۔ چونکہ اس زمانے میں دفاتر وغیرہ میں چھٹی اتوار کے دن ہوتی تھی‘ اس لیے یہ درس اتوار کی صبح کو میرے مکان پر ہوا کرتا تھا۔ 1958ء سے لے کر 1967ء تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ جب اس پورے قرآنِ کریم کے پہلے سلسلہ درس کا اختتام ہوا ‘ تواسی اختتام کے ساتھ ہی یہ تقاضا شروع ہوا کہ مجھے ازسرِنو اس سلسلے کو جاری کرنا چاہیے کیونکہ اس دوران میں بہت سے ایسے احباب درس کے حلقے میں شامل ہو گئے تھے جو پہلے دَور میں یا شروع میں شامل نہیں تھے یا بعد میں یادرمیان میں ‘آکر اس پچھلے وقت کے لیے شامل نہ رہے۔ بہرحال ان سامعین کا تقاضا تھا کہ درس کا سلسلہ پھر شروع کیا جائے چنانچہ 17مارچ 1968 ء ٭(4)میں یہ سلسلہ از سر نو شروع کیا گیا۔ مسلسل درسِ قرآن کریم اس زمانے سے آج تک ہر اتوار کی صبح کو یہاں ہوتا آرہا ہے اور اب جیسا میں نے عرض کیا ہے اکتوبر 1979 میں ہم سورۃ لقمان اکتیسویں سورۃ تک پہنچ پائے ہیں۔قرآنِ کریم کا یہ درس یہاں قارئین تو بالمشافہ سنتے ہیں لیکن باہر کے احباب کے لیے اسے ٹیپس پر محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ ٹیپس کے بعد جب کیسٹس کا سلسلہ جاری ہوا تو پھر اسے کیسٹس پر بھی منتقل کیا گیا اور اس طرح یہ درس مقامی نہ رہا‘ بلکہ پہلے پاکستان کے مختلف شہروں میں اس کا رواج ہوا اور اس کے بعد پاکستان کے باہر بھی مختلف مقامات پر مستقلاً بھی‘ انتظاماً بھی‘ اور صبح صبح بھی ‘بہت سے احباب نے اپنے ہاں کیا‘ بزموں نے بھی اس سلسلے کو مسلسل اپنے ہاں جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ سلسلہ نہ صرف یہ کہ اس وقت رواں دواں جاری ہے بلکہ یہ حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے اس کرمِ بے پایاں پر جس قدر بھی اظہارِ تشکر کروں کم ہے۔

اس سلسلہ نو کی ابتداء جیسا کہ ظاہر ہے سورۃ الفاتحہ سے ہی ہونی تھی چنانچہ اس سورۃ کی تکمیل آٹھ درسوں میں‘ علاوہ اس تمہیدی درس کے ہوئی‘ احباب نے اپنی اپنی جگہ اس کو بڑی ہی کثرت اور وسعت سے پھیلایا اور اس کا اظہار بھی متعدد مقامات پر کیا۔ان کا تاثر یہ ہے کہ اگر اسے دل کے کانوں سے سن لیا جائے تو قرآنِ کریم اکثر وبیشتر پورے طور پر سمجھ میں آجاتا ہے یا کم از کم دین کی تعلیمات‘ اقوال‘ اسلام کے بنیادی نظریات‘ قواعد‘ اور پیام‘ انسان کے سامنے آجاتا ہے۔ اس لیے اس درس کے یہ کیسٹس عام طور پر مختلف مقامات پر بہت زیادہ سنائے گئے اور سنائے جاتے رہے ہیں۔ بعض مقامات سے اطلاع آئی کہ ان کے پرانے ہونے کی وجہ سے اُن کی آواز کچھ تھوڑی سی مفقود ہو گئی ہے ۔ ضرورت ہے کہ میں ان درسوں کو یعنی سورۃ فاتحہ کی تفسیرکو ‘جو میں نے درسوں میں بیان کی تھی‘ اب ازسر نو ریکارڈ کر دوں تاکہ آواز میں جو کہنگی پیدا ہو گئی تھی‘ وہ دور ہو جائے۔

سورۃ فاتحہ کی تفسیر کا ازسرِنو آغاز

ان احباب کے تقاضے کی تعمیل میں‘ میں ان درسوں کو از سر نو ریکارڈ کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ دروس تو صرف ٹیپس پر ریکارڈ ہوئے تھے ‘یہ کہیں پورے طور پر لکھے نہیں گئے تھے کہ انہی کو پڑھ کر میں ریکارڈ کرتا چلا جاؤں۔ یوں سمجھیے کہ میں از سر نو سورۃ فاتحہ کی تفسیر ان درسوں کے ذریعے سے بیان کروں گا۔ اصولی طور پر تو یہ وہی ہو گی جو کچھ میں نے پہلے پیش کیا تھا‘ لیکن ظاہر ہے کہ تفسیر کے اعتبار سے اس میں کہیں کچھ کمی اور کہیں کچھ بیشی آجائے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ کمی کچھ کم ہوگی اور بیشی شاید کچھ زیادہ لیکن 1968ء کے بعد اس گیارہ سال کے عرصے میں بہرحال قرآن کے متعلق میرا فہم‘ میری بصیرت‘ کچھ پہلے سے زیادہ ہی ہو گئی ہے‘ فکر میں بھی کچھ زیادہ عمق آگیا ہے۔ اس لیے بعض مقامات پر اس میں ایسے نئے نکات بھی آئیں گے جو پہلے درسوں میں نہیں آسکے تھے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ اس سلسلہ نو کو جو میں اسی سورۃ کی تفسیر کے سلسلے میں‘ ان درسوں کے ذریعے آغاز کر رہا ہوں‘ان تمام احباب تک پہنچانے کے لیے مجھے توفیق عطا فرمائے ۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ

قرآن حکیم کی بعض بنیادی اصطلاحات کی اہمیت

اس زمانے میں بھی میں نے سورۃ فاتحہ کے درس کا آغاز کرنے سے پہلے ہی ایک تعارفی درس بھی پیش کیا تھا اور اس میں‘ میں نے بتایا تھا کہ قرآنِ کریم کیا ہے‘ اس کو کیسے سمجھا جاتا ہے‘ اسے کیسے سمجھایا جاتا ہے‘ اس کی بعض بنیادی اصطلاحات کا مفہوم کیا ہے؟ وہ ابتدائی تعارفی درس بھی بڑا ہی مقبول ہوا۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ انہی خطوط پر یہ تعارفی درس بھی دوبارہ ریکارڈ کر دیا جائے۔اب وہ تعارفی درس پیش خدمت ہے۔

لفظ قرآن کا بنیادی مفہوم

سب سے پہلے صرف لفظ قرآن کو لیجیے۔ اس لفظ کا مادہ ’’ق ر ء‘‘ ہے۔ عربی زبان میں مادہ کسے کہتے ہیں‘ اور اس کی خصوصیت کیا ہوتی ہے‘ اس کے متعلق میں ذرا آگے چل کر عرض کروں گا۔ اس مادہ کے بنیادی معنی ہوتے ہیں ’’جمع کرنا اور محفوظ رکھنا‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمع اور حفظ بھی تو عربی زبان کے ہی الفاظ ہیں اور خود قرآنِ مجید نے بھی انہیں اپنے ہاں استعمال کیا ہے تو پھر اس لفظ کے مادہ ’’ق ر ء‘‘ میں کیا خصوصیت ہے کہ قرآن کا لفظ اس مادہ سے لیا گیا‘ جمع یا حفظ سے نہیں لیا گیا۔ قرآنِ مجید کا ایک اعجاز لفظوں کے انتخاب میں ہے اور اس کا یہ انتخاب خود پکار کر کہہ دیتا ہے کہ

ایں کتابے نیست چیزے دیگر است

’’ق ر ء‘‘ کے معنی ہوتے ہیں ’’کسی چیز کو اس طرح جمع اور محفوظ رکھنا جس طرح رحم مادر میں نطفہ محفوظ رکھا جاتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ رحم میں نطفہ اس طرح محفوظ نہیں رکھا جاتا جس طرح مثلاً کسی تھیلی میں چند سکے محفوظ رکھے ہوں۔ وہ سکے جامد ہوں گے اور ویسے کے ویسے پڑے رہیں گے لیکن رحم میں نطفہ جامد نہیں ہوتا‘ اس میں بڑھنے‘ پھولنے‘ پھلنے‘ نشوونما پانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم تمام نوعِ انسان کے لیے قیامت تک ضابطہ حیات ہے۔ اس لیے اس میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے اور یہ صلاحیت ہے کہ یہ انسانی زندگی کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ دیتا چلا جائے‘ یہ ہر زمانے میں انسانی فکر کی امامت کا فریضہ سر انجام دے‘ یہ کاروانِ انسانیت کے لیے‘ ہر منزل میں چراغِ راہ ہو‘ یہ کسی مقام پر بھی یہ نہ کہہ دے کہ مجھ میں اب آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ظاہر ہے کہ یہ مقام اسی ذات کوحاصل ہو سکتا ہے‘ جس میں علم انسانی کی نسبت سے بڑھنے اور پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہو۔ یاد رکھیے کہ قرآنِ کریم کے احکام تو اپنے اپنے مقام پر محکم پہاڑ کی طرح اٹل ہیں‘ ان کے معانی اور مفہوم بھی خود قرآن نے متعین کر دئیے ہیں۔

یہ جو کچھ میں نے کہا ہے کہ اس میں علم انسانی کی نسبت سے بڑھنے‘ پھولنے پھلنے ‘آگے جانے کی صلاحیت ہو تو یہ اُن حقائق کے متعلق ہے جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جسے خود قرآن نے ان حسین وبلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (41:53) ۔ اب یہ جو میں نے اس آیت کے آخر میں (41:53) کہا ہے اور یہی کچھ میں اس کے بعد بھی کہتا چلا جاؤں گاتو آپ سمجھ لیجیے کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ یہ(41:53) اس آیت کا حوالہ ہے جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے یا اسی طرح جو آگے تلاوت کروں گا‘ یہ ان کے حوالے ہوں گے۔ میں اس طرح حوالے دیا کرتا ہوں کہ پہلے سورۃ کا نمبر ہوتا ہے اور اس کے بعد آیت کا نمبر ہے مثلاً: (41:53) کے معنی یہ ہیں کہ یہ قرآنِ کریم کی اکتالیسویں سورۃ کی تریپن آیت ہے تو یہ آیت جومیں نے ابھی پیش کی ہے‘ اس میں قرآن نے کہا تھا کہ سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(41:53) ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نوعِ انسان کو اپنی نشانیاں عالمِ انفس وآفاق میں دکھاتے چلے جائیں گے تاآنکہ یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے کہ قرآن نے جو کچھ کہا ہے‘ وہ حق وصداقت پر مبنی ہے۔ یعنی جوں جوں انفس وآفاق میں پوشیدہ حقیقتیں بے نقاب ہوتی جائیں گی‘ قرآن کی صداقت مزید نکھر اور اُبھر کر سامنے آتی جائے گی‘ انسانی علم کی ہر تحقیق اور سائنس کا ہر یقینی انکشاف قرآنی دعاوی کی شہادت بنتا چلا جائے گا۔ دوسرے مقام پر اس نے کہا ہے کہ اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ (38:87) یہ عالمگیر انسانیت کے لیے ضابطہ ہدایت ہے‘ اس لیے وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ(38:88) اس میں بیان کردہ حقائق‘ سب کے سب‘ ایک ہی وقت میں سامنے نہیں آجائیں گے۔ یہ کچھ وقت کے بعد ‘بے نقاب ہوں گے اور ہوتے چلے جائیں گے۔

یہ ہے لفظ قرآن کی‘ مادہ کے اعتبار سے خصوصیت۔ بعض ماہرین لغت کا خیال ہے کہ یہ لفظ قرآن عبرانی ہے اور اس کے معنی ہیں اعلان عام‘ جسے انگریزی میں Proclamation(اعلامیہ)کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کے معنی ہوں گے ’’مملکت خداوندی کا اعلامیہ‘‘۔ وہ جو عام طور پہ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یہ آیت نازل ہوئی تھی : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (96:1)تو اس کے معنی ہوں گے: اٹھ اور دنیا میں اس خدا کی عالمگیر ربوبیت کا اعلانِ عام کر دے جس نے کائنات اور انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ یہ اس حقیقت کا اعلان ہے کہ انسانوں کی ربوبیت یعنی نشوونما‘ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں رہے گی‘ یہ اس خدا کے نظام کی تحویل میں رہے گی‘ جس نے انسانوں کو پیدا کیاہے اور ان کی نشوونما کا ذمہ لیا ہے۔ سوچیے‘ عزیزانِ من ! کیسا انقلاب آفریں ہے خدا کا یہ اعلان ‘جو اس روایت کی رو سے ہے کہ سب سے پہلی آیت یہ ہے جسے سب سے پہلے عالم انسانیت میں عام کیا گیا۔

خداتعالیٰ نے قرآنِ حکیم کو ضابطہ حیات کے معنی میں کتاب بھی کہا ہے

اب آگے چلیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو کتاب بھی کہا ہے۔ اس لفظ کا مادہ ’’ک ت ب‘‘ ہے‘ جس کے معنی ’’حکم دینے یا کسی بات کو واجب قرار دینے کے ہیں‘‘۔ مثلاً قرآنِ مجید میں کتب علیکم الصیام (2:103)تم پر روزے فرض قرار دئیے گئے ہیں۔ کتب علیکم القتال(2:216) تم پر عندالضرورت جنگ کرنا قانوناً لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے کتاب کے معنی ’’ضابطہ قانون‘‘ کے ہوں گے۔ قرآنِ کریم نے اس لفظ کو ان معانی میں خود استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورۃ النساء میں پہلے تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ قانونِ خداوندی کی رو سے کون کون سے رشتے تم پر حرام ہیں اور اس کے بعد کہا ہے کہ کِتٰبَ اﷲِ عَلَیْکُمْ (4:24) یہ تمہارے لیے خدا کا قانون ہے۔ اسی جہت سے قرآن کے متعلق کہا کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (98:3) اس میں نہایت محکم قوانین ہیں۔ لہٰذا قرآنِ کریم کو جب کتاب کہا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ’’اس میں قوانین خداوندی دئیے گئے ہیں‘‘۔

اس مقام پر‘ عزیزانِ من! ضمناً ایک نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ دنیا میں قوانین یا Laws دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ جنہیں قوانین فطرت یا Laws of Nature کہا جاتا ہے اور دوسرے وہ جن کا تعلق خود انسان کی اپنی ذات اور اس کی تمدنی زندگی سے ہوتا ہے۔ قوانین فطرت کے متعلق ہر صاحبِ علم یعنی Scientist (سائنسدان)اس کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ ایک بہت بڑے سائنسدان کے الفاظ میں یہ یوں ہے کہ ’’ہم کتابِ فطرت کو پڑھتے ہیں‘ اسے لکھتے نہیں ہیں‘ ٭(5)یعنی فطرت کے قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ موجود ہیں۔ ہم صرف ان کو سمجھتے ہیں‘ ان کا انکشاف (Discover)کرتے ہیں۔ جہاں تک دوسری قسم کے قوانین کا تعلق ہے‘ تو ان کے متعلق یہ سمجھیے کہ یہ وہ قوانین ہیں جن کا تعلق خود انسان کی اپنی ذات اور اس کی تمدنی زندگی سے ہے۔

انسانوں کے بنائے ہوئے معاشرتی قوانین فوز و فلاح کے حامل نہیں ہوسکتے

مغرب کے سیکولر نظام (Secular System)کی عمارت اس مفروضے پر استوار ہوتی ہے کہ انسانوں کو حق حاصل ہے کہ وہ ان قوانین کو خود وضع کریں یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین انسانوں پر نافذ کیے جائیں‘ لیکن قرآن کا دعویٰ ہے کہ انسانوں کے خود ساختہ قوانین کے تحت انسانی معاشرے کو فوز وفلاح نصیب نہیں ہو سکتی۔ ان قوانین کے بنیادی اصول اور مستقل اقدار بھی قوانین فطرت کی طرح خدا ہی کی طرف سے ملنے چاہئیں۔ یہ اصول واقدار وحی کی روح سے ملتے ہیں اور اب قرآنِ کریم کے اندر محفوظ ہیں۔ قرآن نے جہاں انسانی زندگی سے متعلق قوانین کو کتاب اللہ سے تعبیرکیا ہے‘ وہاں اس نے قوانینِ فطرت کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مثلاً سورۃ توبہ میں ہے کہ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اﷲِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ (9:36) یہ حقیقت ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور یہ اس زمانے سے مقررہے جب خدا نے ارض وسمٰوات کو پیدا کیا تھا۔ یعنی جتنی مدت میں زمین سورج کے گرد پورا چکر کاٹتی ہے وہ ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے اور اس عرصہ کو بارہ پر تقسیم کر کے مہینوں کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس تقسیم کی رو سے‘ ہر سال کا ہر مہینہ‘ سابقہ سال کے اس مہینے کے مطابق ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اس کی وضاحت کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی؟ اس کے متعلق میں متعلقہ مقام پر وضاحت کروں گا۔ اس وقت صرف یہ سمجھیے کہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بات قانونِ فطرت کی ہو رہی تھی یعنی اللہ تعالیٰ نے قانونِ فطرت کو بھی کتاب اللہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد کہا ہے کہ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ (9:36)ان بارہ میں سے چار مہینے ایسے ہیں جن میں جنگ ممنوع قرار دی گئی ہے۔ یہ قانون انسانی معاشرہ سے متعلق ہے‘ فطرت سے نہیں ہے اور اس کے بعد ہے کہ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (9:36) یہ خدا کا دینِ قیم ہے یعنی قوانین فطرت اور انسانی زندگی سے متعلق قوانین دونوں کے مجموعے کا نام الدین ہے ۔اور یہی دینِ قیم ہے ‘ یہی دین محکم ہے‘ خدا کی طرف سے دیا ہوا ہے۔

برادرانِ عزیز! ان تصریحات سے واضح ہے کہ کتاب اللہ کے دو حصے ہیں: ایک صحیفہ فطرت ہے‘ جو خارجی کائنات میں بکھرا پڑا ہے اور دوسرا صحیفہ وحی ہے‘ جس کا محفوظ اور مکمل مجموعہ قرآنِ کریم ہے۔

قوانینِ فطرت سے اعراض کا نتیجہ جہنم ہے

قرآنِ کریم کی رو سے یہ دونوں قوانین خدا کی طرف سے عطا کردہ ہیں اور دونوں کی پابندی ضروری ہے۔ قوانینِ فطرت کی پابندی سے فطرت کی قوتیں مسخر (Harness)ہو جاتی ہیں اور قوانینِ وحی کی پابندی سے یہ قوتیں انسانی ذات کی نشو و ارتقاء اور عالمگیر انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے صرف کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک ضابطہ قوانین سے بھی اعراض برتا جائے‘ تو زندگی کا اعتدال قائم نہیں رہتا اور کاروانِ انسانیت منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر قوانین فطرت سے اعراض برتا جائے تو دین مذہب میں تبدیل ہو کر خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (2:85) دنیاوی زندگی میں ذلت وخواری کا موجب بن جاتا ہے اور اگر مستقل اقدارِ خداوندی سے اعراض برتا جائے‘ تو دنیا اس جہنم میں گرفتار ہو جاتی ہے جس کے شعلے آج تمام اقوامِ عالم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ اس روشِ زندگی کو قرآنِ کریم نے کتاب کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے سے کفر سے تعبیر کیا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہے کہ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (2:85) کیا یہ لوگ کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے اور دوسرے حصے سے کفر برتتے ہیں‘ بلکہ اس میں تو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ کیا تم لوگ ایسے ہو کہ تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے سے کفر برتتے ہو‘تو یاد رکھو !کہ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلآی اَشَدِّ الْعَذَابِط (2:85) جو ایسا کرے گا اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ دنیا کی زندگی میں ذلت وخواری اس کے حصے میں آئے گی اور قیامت میں وہ شدید ترین عذاب میں مبتلا ہو گا۔

انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرنا کفر ہے

تاریخِ انسانیت اس حقیت پر شاہد ہے کہ تسخیرِفطرت اور مستقل اقدار کو جب بھی الگ الگ رکھا گیا‘ اس کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ نکلا۔ انسانی زندگی ایک ناقابل تقسیم وحدت (Indivisible Unit)ہے۔ اسے مختلف حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب میں تفریق کا ایک پہلو تو یہ ہے‘ جس کی طرف میں نے ابھی ابھی اشارہ کیا ہے یعنی قوانینِ فطرت اور مستقل اقدار میں مُغَایَرَتْ ٭(6)پیدا کرنا ۔دوسرا گوشہ یہ ہے کہ خود قرآنِ کریم کے ایک حصے پر عمل کرنا اور دوسرے سے اعراض برتنا۔ اس کا نتیجہ بھی ذلت وخواری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہم نے صدیوں سے یہی روش اختیار کر رکھی ہے اور اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ (2:183) اور کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ (2:216) دونوں یکساں احکامِ خداوندی ہیں‘ لیکن ہم کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ (2:183) پر تو اس شدت سے عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ (2:216) کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کر رکھا ہے حالانکہ مومن کی ساری زندگی مجاہدانہ عسکریت کی زندگی تھی۔ روزوں پر زور اور عسکری تربیت سے اجتناب‘ یہ کتاب کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے سے کفر کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے۔

الحاد

اتنا ہی نہیں کہ کتاب کے ایک حصہ پر عمل اور دوسرے سے مجرمانہ تغافل! قرآن کریم تو یہاں تک بھی کہتا ہے کہ کسی ایک قانون یا صفتِ خداوندی کی پابندی میں اس قدر شدت اختیار کر لینا کہ اس سے دوسرے قوانین یا صفاتِ الٰہیہ نظر انداز ہوجائیں‘ تواس کا نتیجہ بھی خوشگوار نہیں نکل سکتا۔ ایک جگہ اس نے کہا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ ٰاٰیتِنَا لااَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا (41:40) جو لوگ ہمارے قوانین میں ایک طرف نکل گئے ان کی یہ روش ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ دوسرے مقام پر ہے کہ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖ (7:180)جو لوگ صفاتِ خداوندی میں سے کسی ایک صفت کو لے کر اس میں ایک طرف دُور تک نکل جائیں‘ تم ان سے کنارہ کشی کرو۔ مثال کے طور پر یہودی اور ہندو خدا کی صفتِ عدل میں اس قدر متشدد ہوگئے کہ انہوں نے لغزش خوردہ انسانوں کے لیے باز آفرینی کا کوئی دروازہ ہی کھلا نہ رہنے دیا۔ دوسری طرف عیسائیت‘ اس کی صفتِ رحیمیت میں اس قدر متشدد ہوگئی کہ اس نے زندگی سے عمل کو یکسر خارج کر دیا اور ہر بات کو خدا کا رحم اور Graceپر منحصر قرار دے دیا۔ قرآنِ کریم کی رو سے وہ روش بھی غلط تھی اور یہ بھی غلط۔ صحیح روش وہی ہے جو ان قوانین و صفات کی پابندی میں ‘صحیح تناسب و توازن لیے ہوئے ‘ انہیں علی حدِ بشریت ‘اپنے اندر منعکس کرے اورعملی زندگی میں انہیں معیار قرار دے۔ اس وقت میں صرف انہی اشارات پر اکتفا کرتا ہوں تفصیل اس اجمال کی اپنی اپنی جگہ آپ کے سامنے بعد میں آتی رہے گی۔

قرآن حکیم کے علاوہ دنیا میں کوئی کتاب بھی بغیر سوچے سمجھے نہیں پڑھی جاتی

قرآنِ کریم کو کتاب کہنے سے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا بھی مقصود تھا کہ یہ ایک کتاب ہے اور جس طرح تم کسی کتاب کو پڑھتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہو‘ اسی طرح اسے بھی پڑھو اور اس سے مستفید ہو۔ آپ سوچیے کہ اگر آپ کو کوئی ایسی کتاب دے دی جائے‘ جس کی زبان سے آپ ناواقف ہوں ‘تو آپ اس کتاب کو کبھی نہیں پڑھتے حتیٰ کہ اگر اُس کی زبان مشکل ہو‘ تو آپ اس کے دو چار صفحے پڑھ کر الگ رکھ دیتے ہیں کہ اس کا معیار میری علمی سطح سے اونچا ہے۔ اگر اس کتاب کا پڑھنا آپ کے لیے ضروری ہے تو آپ اس کی زبان سیکھتے ہیں اور اپنے اندر اتنی استعداد پیدا کرتے ہیں‘ جس سے وہ کتاب سمجھ میں آجائے۔ آپ کبھی یہ نہیں کرتے کہ آپ وہ کتاب پڑھتے جائیں خواہ وہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ دنیا کی کسی کتاب کے ساتھ آپ یہ نہیں کرتے لیکن اس میں ایک استثناء‘ (exception )ہے اور وہ ہے قرآنِ کریم۔ اس کے متعلق یہ عقیدہ وضع کر لیا گیا کہ اس کی زبان آتی ہو یا نہ آتی ہو‘ اسے پڑھتے رہنا چاہیے ‘اس سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے‘ جسے اس شدت اور کثرت سے پڑھا جاتا ہو‘ اور اس کے ساتھ ہی دنیا کی کوئی اور کتاب ایسی نہیں جسے بے سمجھے پڑھا جاتا ہو ۔

قرآنِ حکیم کے خلاف ایک گہری سازش

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو قرآنِ کریم سے دور رکھنے کے لیے یا یوں کہیے کہ قرآن کو ان کی نگاہوں سے اوجھل کرنے کے لیے یہ ایک بڑی گہری ٭(7)سازش تھی‘ جسے تقدس (Sacred)کا لباس پہنا کر مزین بنا دیا گیا۔ یوں قرآن کتاب نہ رہا۔ معاف رکھیے‘ جنتر منتر (Mumbo Jumbo)کا مجموعہ بن کر رہ گیا ۔ کتاب اور جنتر منتر میں فرق یہ ہوتا ہے کہ کتاب کے الفاظ سمجھ کر پڑھے جاتے ہیں اور جنتر منتر کے الفاظ بلا سمجھے دہرائے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ قرآن کے الفاظ کے تعویذ لکھے جانے لگے‘ اس کی آیات کے ورد ہونے لگے اور اس کا نام رکھا گیا ’’اعمالِ قرآنی‘‘ اور ایسا کرنے والا کہلانے لگا ’’عامل‘‘۔ سوچیے کہ ہم اس کتاب کے ساتھ کیا کررہے ہیں؟ یاد رکھیے! جب تک مسلمان قرآن کو کتاب نہیں سمجھتا‘ وہ اس سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔

قرآنِ حکیم نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ہی مدون شکل میں موجود تھا

برادرانِ عزیز! یہاں ایک اور نکتہ کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے شروع میں کہہ دیا تھا کہ ذٰلِکَ الْکِتٰب (2:2 )یہ ایک ’’کتاب ‘‘ہے۔ عربوں کے ہاں کتاب کا لفظ اس وقت بولتے تھے جب ’’منتشر اجزاء کی شیرازہ بندی کر کے‘ ان میں لوہے کا کڑا (Iron Ring) پرو دیا جاتا تھا یا سلائی کر دی جاتی تھی‘‘۔ قرآن کو الکتاب کہنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ صحیفۂ مقدسہ حضورِ نبی اکرم کے زمانے میں ایک مرتبہ اور مدوّن کتاب کی شکل میں موجود تھا‘ جس کی شیرازہ بندی بھی ہو چکی تھی۔ سورۃ الطور میں ہے کہ وَالطُّوْرِ o وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ o فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ (52:1-3) قرآن سطروں میں لکھی ہوئی کتاب تھی۔ پہلے اسے منتشر اوراق پر لکھا جاتا تھا اور بعد میں اس کی شیرازہ بندی کی جاتی تھی۔

عربوں کے ہاں ہرن کی کھال چھیل کر اسے (چرمی کاغذ) Parchment ٭(8) کی شکل میں‘ قرطاس بنا لیتے۔ اسے رَقَّ کہا جاتا تھا۔ جن تحریروں کو محفوظ رکھنا مقصود ہوتا‘ انہیں اس پر قلم بند کر لیتے تھے۔ جہاں تک کاتبین وحی کا تعلق ہے‘ سورۃ عبس میں ہے کہ قرآن کی کتابت بڑے با عزت اور قابلِ اعتماد کاتبوں نے کی تھی (80:15-16)۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ روایات جن میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں قرآن جمع اور مدوّن نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی تدوین بعد میں منتشر ٹھیکریوں‘ ہڈیوں اور پتوں کی مدد سے حضرت ابوبکر صدیق (632-634 )یا حضرت عمرفاروق (634-645) یا حضرت عثمان غنی (645-656 ء( کے زمانے میں ہوئی تھی‘ وضعی ہیں ‘جنہیں قرآن کی اہمیت اور خصوصیت کو نظروں سے گرانے کے لیے اختراع کیا گیا ہے۔ قرآن حضورؐ کے زمانے میں ‘حضورﷺ کی زندگی میں ہی ‘اسی شکل میں مرتب‘ مدوّن ‘قرطاس پر موجود تھا ‘جس شکل میں آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔ اس میں ایک لفظ بھر کی کمی بیشی کہیں نہیں ہوئی۔ اسی مرتب اور مدوّن کتاب کے متعلق کہہ دیا گیا کہ یہ کتاب مکمل ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا: وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ط لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ج (6:116)۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کا ذمے دار ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9)۔ خدا نے اس کی تصریح فرما دی کہ قرآنِ کریم ایک مرتب کتاب کی شکل میں رسول اللہ کے زمانے میں موجود تھا۔ یہ ہر طرح سے مکمل بھی ہے اور غیر متبدل بھی اور یہ بھی کہ یہ قیامت تک کے لیے محفوظ رہے گا۔

ختمِ نبوت

برادرانِ عزیز! اس سے آپ ‘علاوہ دیگر امور ‘اس حقیقت کو بھی دیکھ لیں گے کہ قرآنِ کریم نے ختمِ نبوت کی حقیقت کو کس طرح واضح کر دیا ہے۔ جب ایک ایسا ضابطہ حیات ہو جو تمام نوعِ انسان کے لیے‘ قیامت تک کے لیے‘ مرتب اور محفوظ شکل میں دے دیا گیا ہو اور اس کے بعد اس میں کوئی تبدیلی بھی نہ کر سکتا ہو' تو ایسی کتاب کی موجودگی میں کسی نبی یا رسول کے آنے کی کیاضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ قرآن کی ابدّیت‘ اکملیّت‘ محفوظیّت اور عالمگیریّت خود ختمِ نبوت کی دلیل ہے۔ قرآن کی نص صریح کی روح سے کوئی نبی یا رسول بغیر کتاب کے نہیں آیا لہٰذا جب خدا کی طرف سے آخری کتاب دی جائے تو اس کا لانے والا خود بخود آخری رسول ہو جائے گا۔ اس لیے نبی اکرم خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور اس کی کتاب آخری کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے محفوظ ہے۔

قرآنِ حکیم کے لیے عربی زبان کی خصوصیات کی وضاحت

اب آئیے قرآن کریم کی زبان کے متعلق۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کہا ہے کہ یہ کتاب بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ(26:195) ہے۔ یعنی اس کتاب کی زبان عربی مبین ہے اور دیگر مقامات پر بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ کتاب عربی مبین میں نازل ہوئی ہے۔ خود لفظ عربی کے معنی بھی ’’فصیح اور واضح کے ہیں‘‘ اور جب اس کے ساتھ ’’مبین‘‘ کا اضافہ کر دیا جائے تو اس کے واضح تر ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ یہ کتاب واضح ہے اور غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ (39:28)ہے ‘یعنی اس میں کوئی پیچ وخم نہیں‘ ابہام نہیں‘ التباس نہیں: صاف‘ نکھری‘ سیدھی‘ واضح‘ کتابِ روشن‘ حتیٰ کہ قرآن کو نور بھی کہا گیا ہے‘ یعنی خود روشن اور دنیا کو روشن کرنے والی کتاب۔ جس طرح روشنی اپنے وجود کو یا اپنے آپ کو دکھانے کے لیے کسی اور روشنی کی محتاج نہیں ہوتی‘ اسی طرح قرآنِ کریم بھی اپنے مطالب ومفاہیم واقدار واصول وپیغام وتعلیم کو واضح کرنے کے لیے کسی خارجی روشنی کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی وضاحت ذرا آگے چل کر آئے گی ۔

قرآنِ حکیم صرف اپنے الفاظ میں ہی قرآنِ حکیم ہے

جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے‘ قرآنِ کریم کی زبان اس کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی تھی‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اصول یہ بتایا ہے کہ جس قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جاتا ہے‘ اُس رسول کا پیغام‘ اُسی قوم کی زبان میں ہوتا ہے۔ چونکہ رسول اللہ کے اوّلیں مخاطب عرب تھے اس لیے قرآنِ کریم انہی کی زبان میں آیا اور انہی کی زبان میں آنا چاہیے تھا لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مشیت کے پروگرام میں کچھ ایسا تھا کہ وہ زبان جس میں قرآن نازل ہونا تھا‘ ایسی جامع‘ عمیق اور وسیع ہو کہ وہ قرآنی حقائق کی متحمل ہو سکے۔ علم الالسنہ کے ماہر بتاتے ہیں کہ اس باب میں دنیا کی کوئی زبان عربی زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

جب حضرت ابراہیماپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے تو خدا نے انہیں بیٹے کے حلق پر چھری چلانے سے روک دیا اور کہا کہ ہم اسے ایک عظیم قربانی کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے بڑے بیٹے تھے اور باپ کی مملکتِ عظیم کا انہی کو وارث ہونا تھا لیکن حکم یہ دیا گیا کہ انہیں حجاز کی وادئ غیر ذی زرع میں بسایا جائے۔ غیر ذی زرع کہ جہاں کچھ اگتا ہی نہیں‘ جہاں کچھ ہوتا ہی نہیں۔ کہا کہ انہیں اس وادی میں بسایا جائے تاکہ یہ وہاں خانۂ خدا کی تولیت کا فریضہ سرانجام دیں اور مملکتِ شام کی سرداری حضرت اسحاقکو دے دی جائے- اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق کی اولاد بنی اسرائیل‘ امورِ جہاں بانی میں مصروف رہی۔ اس کے حصے میں شوکتِ سلیمانی اور سطوتِ داؤدی آئی‘ لیکن بنی اسماعیل اسی وادئ غیر ذی زرع میں نہایت سادہ زندگی بسر کرتے رہے۔ انہوں نے نہ کوئی حکومت قائم کی اور نہ ہی کسی تہذیب وتمدن کی بنا ڈالی‘ یہ ایک ہی کام کرتے رہے یعنی عربی زبان کی تشکیل ‘ تعمیر اور تہذیب۔ انہوں نے اس زبان کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ دنیا کی کوئی زبان اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔

یہ ہمارا عقیدت مندانہ دعویٰ ہی نہیں بلکہ دنیا کے محققین پوری تحقیق وتفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ ڈاکٹر بک ٭(9) (Dr. Bucke)نے اپنی مشہور کتاب Cosmic Consciousness میں مشہور مستشرق Max Muller کی تحقیقات کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’جس زمانے میں تمام انڈو یورپین زبانوں (Indo-european languages)میں مادی تصورات (Root Concepts)کی تعداد ایک سو اکیس( 121)تک پہنچ پائی تھی‘ عربوں کے ہاں صرف اونٹ کے تضمنات میں پانچ ہزار سات سو چوالیس (5744)الفاظ موجود تھے۔ سوچیے‘ اس سے اس زبان کی وسعتوں کا اندازہ لگ سکتا ہے۔

عربی زبان کے مادوں کی تعداد 25ہزار کے قریب ہے

عزیزانِ من! یہ عربی زبان بڑی سائنٹفک زبان ہے۔ اس میں ایک مادہ یعنی Root ہوتا ہے جو عام طور پر تین حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس مادے کے معانی میں ایک بنیادی خصوصیت ہوتی ہے‘ جو ان تمام الفاظ میں جھلکتی چلی جاتی ہے‘ جو اس مادے سے مختلف ابواب میں بنائے جاتے ہیں۔ ان مادوں کی تعداد پچیس ہزار (25000)کے قریب ہے۔ آپ اندازہ لگا لیجیے کہ ان مادوں سے جو الفاظ بنائے گئے ہوں گے‘ ان کی تعداد کس قدر ہو گی‘ اور پھر اس میں دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مختلف ابواب ہیں‘ اوزان ہیں‘ ہر باب کی ایک الگ خصوصیت ہوتی ہے۔ یعنی ایک مادہ یا Root ہے‘ جس کی ایک متعین خصوصیت ہے۔ وہ خصوصیت ہر اس لفظ میں پائی جائے گی جو اس) Root مادہ) سے بنے اور پھر وہ الفاظ ان ابواب کے مطابق بنیں گے اور ہر باب کی ایک الگ خصوصیت ہو گی۔ اس لیے جو لفظ بھی آپ کے سامنے آئے‘ اس کے باب کو دیکھیے۔ اور اس کے Root (مادہ) کو دیکھیے۔ ان دونوں کو ملانے سے اس کا ایک متعین مفہوم آپ کے سامنے آجائے گا۔ یہاں تک کہ یہ ترتیب اس مادے میں فلاں اور فلاں حرف اکٹھا آئے تو اس کی یہ خصوصیت ہو گی‘ یعنی جتنے بھی) Roots مادے) ایسے ہوں گے جن میں وہ دو حرف آجائیں ان میں وہی خصوصیت ہو گی‘ جو ان دو حرفوں کے اکٹھے ہونے سے بتائی گئی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ دنیا کی کوئی زبان بھی ایسی ہے جو اس کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ یہ تھی وہ زبان جس میں قرآن نازل ہوا ۔٭(10)

قرآنِ حکیم کی عربی زبان آسان ترین بھی ہے اور نہایت عمیق و وسیع بھی

پہلے تو یہی بات یہاں سے سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زبان بڑی سائنیٹفک (Scientific) واقع ہوئی ہے۔ اس لیے اس کا سمجھنا بڑا آسان ہے۔ یہ جو اس زبان کو ہوّا بنا کر رکھ دیا گیا ہے تو یہ بھی ایک سازش ہے‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ عام مسلمان قرآن کو براہِ راست سمجھنے نہ لگ جائے اور یہ خاص طبقے کی اجارہ داری رہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر آپ میں سے کسی نے عربی ادب پر حاوی ہونا ہو‘ تو وہ واقعی بڑی محنت بھی چاہتا ہے‘ بڑی وسعت ومعلومات چاہتا ہے‘ تعلیم میں بھی بہت آگے بڑھنا پڑھتا ہے لیکن قرآنِ کریم تو اس قدر آسان عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے یعنی عجیب چیز ہے کہ زبان کے اعتبار سے اتنا جامع‘ اتنا وسیع‘ اتنا عمیق اور سمجھنے کے اعتبار سے اس قدر آسان! خود اس کا دعویٰ ہے کہ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ(54:16) یہ حقیقت ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے بڑا آسان بنایا ہے۔ دوسری جگہ ہے کہ کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (41:3) یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو نکھا رکر‘ الگ الگ کر کے‘ واضح طور پر‘ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ قرآن اُن لوگوں کے لیے جو علم وبصیرت سے کام لیں‘ ایک واضح ضابطہ حیات بن گیا۔ یہ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ (16:89) ہے یعنی جن امور کا ذکر اس میں کیا گیا ہے‘ انہیں بڑی وضاحت سے کھول کر بیان کیا گیا ہے۔

ان تصریحات سے ایک بات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے سمجھنے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں جو الفاظ آئے ہیں‘ پہلے Roots ٭یا مادہ کی روح سے ان کے معانی متعین کیے جائیں اور پھر یہ دیکھا جائے کہ زمانہ نزول قرآن میں ان الفاظ کے معانی کیا لیے جاتے تھے۔ ایک لفظ کے) Shape شکل و ساخت) کے اعتبار سے کئی ایک معانی یا مفہوم ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جس زمانے میں قرآنِ کریم نازل ہوا تھا عرب اس کے کیامعنی لیتے تھے۔

ہزار سال سے مرتب کی جانے والی لغات کی ایک بنیادی کمزوری

برادرانِ عزیز! قرآنِ کریم کا مفہوم اُسی صورت میں سمجھ میں آسکتا ہے جب پہلے یہ معلوم ہو کہ زمانہ نزول قرآن میں عرب ان الفاظ کا جو قرآنِ کریم میں آئے ہیں کیا مطلب یا معنی لیا کرتے تھے۔ قرآنِ کریم کے متعلق ہمارے ہاں اس ہزار سال میں اس قدر لکھا گیا ہے کہ اس سے کمروں کے کمرے بھر جائیں لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ قرآنِ مجید کا کوئی لغت ایسا نہیں جو اس انداز سے مرتب کیا گیا ہو۔ یعنی جو چیز قرآن کے سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے‘ وہ چیز ہمارے ہاں کے اس لٹریچر میں کبھی مرتب ہی نہیں ہوئی۔ لے دے کر ایک امام راغب اصفہانی٭(11) (متوفی قریب 502ھ) کی لغت ہے‘ جسے المفردات فی غریب القرآن کہتے ہیں لیکن وہ بڑا مختصر سا لغت ہے۔ وہ اس نہج پر مرتب نہیں کیا گیا جس کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے ۔٭(12)

لغت کے مرتب کرنے میں میری سعی و کاوش

قرآنِ کریم کا صحیح مفہوم سمجھنے کے راستے میں میری سب سے بڑی اور پہلی دشواری بھی یہی اسی قسم کے لغت کا فقدان تھا۔ لہٰذا میرے لیے ایسا لغت مرتب کرنا یوں کہیے کہ میرے حیطۂ تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ تنہا بے سازو سامان کوئی رفیقِ کار نہیں‘ کوئی جماعت نہیں اور پھر غالباً آپ احباب کو اس کا علم ہو گا کہ میں مرکزی حکومتِ ہند میں ملازم بھی تھا لیکن چونکہ مجھے قرآنِ کریم کے ساتھ عشق تھا اور عشق اس قسم کی خارا شگافیوں کو آسان بنا دیا کرتا ہے۔ میں نے اللہ کا نام لے کر اس قسم کے لغت مرتب کرنے کا کام شروع کر دیا۔٭(13) اللہ تعالیٰ کا یہ فضل وکرم سمجھیے کہ میں برسہا برس کی محنت شاقہ کے بعد اس میں کامیاب ہوا اور میرا یہ لغت چار جلدوں میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے اور بڑا ہی مقبول ہوا ہے کیونکہ یہ اپنے انداز کی منفرد ڈکشنری یا لغت ہے‘ جس کا کہیں دوسرا جواب نہیں ملتا۔ اس پر میں بدرگاہِ رب العزت جس قدر بھی سجداتِ شکرانہ ادا کروں‘ کم ہیں۔ اس لغت کی مدد سے قرآنِ کریم کے الفاظ کے صحیح معانی تو متعین ہو گئے۔ بظاہر یہ نظر آئے گا کہ اس کے بعد قرآنِ کریم کی آیات کا ترجمہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا یا بہت آسان تھا لیکن یہاں ایک اور دشواری شروع ہوئی۔

الفاظ کے معنی تو یہ کیے لیکن قرآنِ کریم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وحی کردہ کتاب ہے اور اس کے تو اعجاز ہی اس قسم کے ہیں کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بالآخر یہ کتاب کس انداز سے مرتب ہوئی ہے۔ اس کا انداز گرانقدر معجزانہ ہے۔ اس میں اس کے خاص اسلوب کو بنیادی دخل ہے۔ اس کی آیتوں کے اندر جو الفاظ آئے ہیں ‘ان کی ترتیب اور ترکیب توکچھ اس انداز کی ہے کہ ان کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ بات میں محض اعتقاد کی بنا پر نہیں کہہ رہا بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم تو ایک طرف‘ مغرب کے بڑے بڑے مستشرقین‘ جو عربی زبان کے فاضل ہیں‘ وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی زبان کا اسلوبِ بیان اس قسم کا ہے کہ اس کا ترجمہ دنیا کی کسی زبان میں ہو نہیں سکتا۔ H.A.R Gibb عربی زبان کا بہت بڑا فاضل ہے۔ اس کی ایک کتاب )Modern Trends In Islam اسلام میں جدید رجحانات)ہے۔ اس کا 1945 کا ایڈیشن میرے سامنے ہے۔ وہ اس کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔جس طرح کسی بلند شاعری کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ وحی کی زبان ہی مختلف ہوتی ہے ۔۔۔قرآنِ کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرو تو اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ اس کے عربی زبان کے تراشے ہوئے نگینوں کے گوشوں کو جامع طور پر سامنے لانے کے بجائے ‘مترجم اپنے وضع کردہ ایسے الفاظ استعمال کرے گا جو اصلی الفاظ کی وسعت اور جامعیّت کو مقید کر دیں گے۔ ایسی آیات میں ‘جن میں عام واقعات یا قوانین واحکام مذکور ہوں ‘ترجمہ کا یہ نقص شاید زیادہ نقصان رساں نہ ہو لیکن‘ بایں ہمہ ‘جو مدوجزر‘ جو نشیب وفراز‘ جو بلندیاں اور گہرائیاں‘ جو لطافتیں اور باریکیاں‘ اور اس کے ساتھ جو جوش وخروش ‘اصل کتاب میں جلوہ فرما ہے‘ وہ ترجمہ میں کیا آسکے گا! ذرا اس صاف اور سیدھی سی آیت کو لیجیے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیٖ وَنُمِیْتُ وَاِلَیْنَا الْمَصِیْرُ (50:43) اور انگریزی ہی نہیں‘ دنیا کی کسی زبان میں اس کا ترجمہ کر کے دکھائیے۔ اس کے چھ الفاظ میں ‘جو پانچ مرتبہ ’’ہم ( We )کی تکرار ہے‘ اسے کون سی زبان ادا کر سکے گی؟‘‘

قرآن حکیم کے ترجمہ کی بجائے اس کا مفہوم بیان کرنے کی طرح ڈالی گئی

عزیزانِ من! قرآنِ کریم کے الفاظ کے معانی متعین کرنے کے بعد بھی اس کی آیات کا ترجمہ کرنا میرے لیے کیا‘ کسی کے بھی بس میں نہ تھا ۔لہٰذا میں نے ترجمے کے بجائے قرآنِ کریم کا مفہوم لکھا۔ اس کا نام ہے ’’مفہوم القرآن‘‘۔ میرا یہ ’’مفہوم القرآن‘‘ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے الحمد سے والناس تک مسلسل تیس پاروں کا مفہوم ہے۔ اور وہ نہایت حسن وخوبی سے شائع ہو چکا ہے۔اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ جن لوگوں نے اسے دیکھا ہے‘ وہ متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس سے قرآنِ کریم کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔

قرآنِ حکیم کی وضاحتوں کے بارے میں ارشاد خداوندی

یہ کچھ توقرآنِ کریم کی آیات کے مفہوم کے متعلق تھا جب کہ اس سلسلہ میں قرآنِ کریم کا ایک اور اہم باب بھی ہے جو اس نازل کرنے والے خدا نے کہا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (75:19) قرآن کی وضاحت خود ہمارے ذمے ہے۔ اس کے لیے طریق کیا اختیار کیا گیا ہے‘ یہ بات غور سے سمجھنے کے قابل ہے۔ قرآن کا انداز عام کتابوں جیسا نہیں۔ عام کتابوں کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں وہ کتاب مختلف ابواب میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ ہر باب کا ایک خاص موضوع ہوتا ہے اور اس موضوع سے متعلق تعلیم اس باب کے تحت مربوط طور پر دے دی جاتی ہے یعنی جب ایک باب ختم ہوتا ہے تو جو کچھ اس موضوع کے متعلق کہنا مطلوب ومقصود ہے‘ وہ اس باب کے اندر آجاتا ہے۔ قرآن اس طرح کی تصنیف کردہ کتاب نہیں ۔یہ یوں سمجھیے کہ جیسے تئیس سال میں عطا فرمودہ مختلف خطبات کا مجموعہ ہو۔ اس میں ایک بات ایک مقام پر آئی ہے۔ اس کی مزید وضاحت دوسرے مقام پر ہے‘ تفسیر کسی اور جگہ ہے‘ استثناء کسی اور سورت میں ہے۔ نیز مختلف حقائق کو مختلف واقعات کے ضمن میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ اسے تصریفِ آیات سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی آیات کو پھیر پھیر کر لانا۔ سورۂ انعام میں ہے کہ وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَہٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (6:105)۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن میں مختلف آیات کو پھیر پھیر کر اس لیے لایا گیا ہے کہ بات اس طرح واضح ہو جائے جیسے چھلکا اور مغز الگ ہو جاتے ہیں اور یوں بات نکھر اور ابھر کر سامنے آجائے۔ اس کے بعد یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے سمجھنے کے لیے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک محاورۂ عرب یعنی نزولِ قرآن کے زمانے میں عربی زبان کے ان الفاظ کا جو قرآن میں استعمال ہوئے ہیں‘وہ مفہوم ‘جو عرب لیتے تھے‘ اس سے واقفیت ۔دوسری بات قرآنِ کریم پر اتنا عبور ہو کہ جو بات کسی ایک آیت میں کہی گئی ہے یہ چیز بیک وقت آپ کے سامنے آجائے کہ اس کے متعلق قرآن کے دیگر مقامات میں کیا آیا ہے۔

قران حکیم کے انسائکلوپیڈیا یا بتویب کی اہمیت اور اس کی تیاری کا مرحلہ

جس طرح قرآنِ کریم کے الفاظ کے متعلق بیان کیا گیا ہے ‘ اس قسم کا بھی کوئی لغت پہلے سے موجود نہیں تھا۔ قرآنِ کریم کے اس انداز کو آپ انسائیکلو پیڈیا کہیے کہ عربی زبان میں اسے تبویب ٭(14)کہتے ہیں ‘ یعنی باب کرنا قرآنِ کریم کے متعلق اس قسم کی بھی کوئی کتاب اس سے پہلے موجود نہیں تھی ‘یعنی ایسی کتاب جو ہر اس موضوع کے متعلق بیک وقت بتا دے جوآپ کے ذہن میں آئے کہ قرآنِ کریم میں یہ موضوع کس کس مقام میں آیا ہے‘ اس کے متعلق کیا کیا آیا ہے‘ وضاحت کہاں ہے‘ اضافہ کہاں ہے‘ استثنا کہاں ہے‘ تشریح مزید کہاں ہے‘ براہِ راست یہ کچھ کہاں کہاں کہا گیا ہے یا کسی واقعہ کے ضمن میں یہ کچھ کس کس جگہ ہے۔ یہ تمام چیزیں بیک وقت سامنے آجائیں اور غور فرمائیے عزیزانِ من! کہ یہ مرحلہ پہلے سے بھی زیادہ دشوار گزار اور محنت طلب تھا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر اس تبویب یا انسائیکلو پیڈیا کا بھی آغاز کر دیا اور اس کے فضل وکرم سے اس میں اس طرح کامیاب ہوا کہ میری تبویب القرآن‘ قریباً دوہزار صفحات پر پھیلی ہوئی یہ کتاب شائع ہو کر بڑی ہی مقبول ہو چکی ہے۔ ٭(15)

اب آپ سوچ لیجیے کہ قرآنِ کریم کے سمجھنے کے لیے جو کچھ میں نے کیا ہے‘ وہ کس قدر محنت طلب مرحلہ تھا۔ پہلے جس انداز سے سمجھا اور پھر اس کو سمجھانے کا جو انداز ہے‘ اس کے لیے لغات القرآن ہے یہ لغات القرآن صرف قرآنِ کریم کے الفاظ کے وہ معانی بتاتا ہے ‘ جو زمانہ نزولِ قرآن میں عرب لیتے تھے‘ پھر ان معانی کی رو سے سارے کے سارے قرآن کا مفہوم مرتب کیا اور قرآن کے موضوعات کے متعلق اس قسم کی تبویب کا انسائیکلو پیڈیا ترتیب دیا کہ جو موضوع آپ کے سامنے آئے‘ آپ کو بیک وقت معلوم ہو کہ قرآن میں اس کے متعلق کیا کیا آیا ہے۔ ان چیزوں کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کو صحیح طور پر سمجھنے کی کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

قرآنِ حکیم پر غوروفکر کی شرط ہر دَور کے لیے لازم ہے

عزیزانِ من! ان دونوں شرطوں سے زیادہ اہم ایک اور شرط بھی ہے اور وہ ہے تدبر فی القرآن (4:82) یعنی قرآنِ کریم کے سمجھنے میں غور وفکر سے کام لینا۔ آپ قرآنِ کریم کے ورق الٹیے ‘قریب قریب ہر صفحہ پر آپ کو علم وبصیرت اور عقل وشعور سے کام لینے اور غور وفکر کرنے کی تاکید ملے گی۔ تدبر کا حکم نہ کسی خاص فرد کے لیے ہے‘ نہ کسی خاص زمانے کے لیے ہے‘ وہ تمام افراد کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اس لیے قرآن کو تقلیداًسمجھا ہی نہیں جا سکتا ‘نہ ہی کسی ایک فرد کا تدبرو تفکر دوسرے کے لیے سند اور حجت ہوسکتا ہے۔ یعنی اس طرح سے نہیں ہے کہ کسی خاص زمانے میں ‘کسی خاص فرد نے ‘جو قرآنِ مجید کی کوئی تفسیر لکھ لی‘ وہی ہمارے لیے بھی کافی ہو گئی۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ ہر زمانے کے مسلمان کو‘ ہر زمانے کے انسان کو‘ دعوت دیتا ہے کہ وہ خود قرآنِ کریم پر غور وفکر کرے ۔اس لیے کسی ایک فرد کا تدبر اور تفکر دوسرے کے لیے سند اور حجت نہیں ہو سکتا۔

قرآنِ حکیم سے استفادہ کرنے والے کے لیے دقت کے تقاضوں سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہوگا

قرآنِ کریم پر غور کرنے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے زمانے میں جس سطح تک علمِ انسانی پہنچ چکا ہے‘ اس پر اس کی نگاہ ہو۔ قرآن انسانی زندگی کے تقاضوں کا حل پیش کرتا ہے۔ اگر کسی کو یہ ہی معلوم نہ ہو کہ اس کے زمانے کے انسانی تقاضے کیا ہیں‘ تو وہ قرآن سے کیا رہنمائی حاصل کر سکے گا۔ اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ جس طرح ایک فرد کا تدبر فی القران دوسرے کے لیے سند اور حجت نہیں ہو سکتا‘ اسی طرح جو کچھ قرآن کے متعلق کسی ایک زمانے میں سمجھا گیا ہو‘ وہ بھی حرفِ آخر نہیں ہوسکتا۔ جوں جوں علمِ انسانی بڑھتا جائے گا‘ نت نئے قرآنی حقائق واضح ہوتے چلے جائیں گے۔

قرآنِ حکیم کی کسی بات میں بھی تضاد نہیں ہے

اب آگے چلیے۔ قرآنِ کریم میں ہے کہ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا (4:82) کیا ان لوگوں نے قرآن میں تدبر نہیں کیا؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں کئی اختلاف پاتے۔ یعنی قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں کہیں اختلاف نہیں اور یہ چیز اس کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل ہے۔ ہمارے ہاں عام طور کہا جاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ میں تو کوئی اختلاف نہیں یعنی جتنے بھی قرآن کے نسخے ہیں‘ ان میں متن (Text)ایک ہی جیسا ہے‘ اس میں کوئی اختلاف کی بات نہیں‘ کوئی اختلافی چیز نہیں۔ سب جگہ یہی الفاظ ہیں کہ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کی تعبیرات (Interpretations) مختلف ہو سکتی ہیں۔ آپ سوچیے کہ لفظی اختلافات کا نہ ہونا بھی کوئی ایسی خصوصیت ہے جس کا اس تحدی سے ذکر کیا جاتا ؟ بات تو ساری تعبیرات کی ہے۔ اگر کسی کتاب کی عبارت کی کیفیت یہ ہو کہ وہ زید کو کوئی مفہوم دے اور بکر کو اس کے بالکل متضادمفہوم ‘تو کیا اہلِ علم کے نزدیک اس کتاب کی کوئی وقعت ہو سکتی ہے؟ یاد رکھیے! قرآنِ حکیم کی کسی بات میں بھی تضاد نہیں ہے۔

قرآن حکیم پر تدبر مشروط ہوگا

قرآن سمجھنے کے لیے جو شرائط خود قرآن نے مقرر کی ہیں‘ اگر ان کے مطابق قرآن میں تدبر کیا جائے‘ تو اس کے کسی حکم کی دو تعبیرات (Interpretations)ہو ہی نہیں سکتیں۔ اس لیے اگر امت قرآن کو اپنی سمجھ اور حجت اور آخری دلیل تسلیم کر لے‘ تو امت میں کسی قسم کا تفرقہ اور اختلاف پیدا ہی نہیں ہو سکتا؟

اس مقام پر ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے۔ قرآنِ کریم میں کچھ تو احکام وقوانین دئیے گئے ہیں اور کچھ حقائق۔ احکام وقوانین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں‘ جن کے معانی متعین اور ٹھوس (Concrete)ہیں لیکن حقائق بالخصوص وہ حقائق ‘جن کا تعلق مابعد الطبیعات (Meta -Physics)سے ہے‘ انہیں تشبیہات کے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اہلِ علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ تشبیہات واستعارات سے ہر شخص اپنے اپنے فہم اور علمی سطح کے مطابق مشبہ بہٖ کے متعلق تصور قائم کر سکتا ہے۔ ان تصورات میں اختلاف ہو گا لیکن جہاں تک قرآنی ہدایت کا تعلق ہے ‘ان کی دو تعبیریں نہیں ہو سکتیں۔ یہ احکام وقوانین اسلامی نظام کی طرف سے نازل ہوں گے‘ اس لیے ان کی عملی جزئیات میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہو گا ۔ یوں امت میں وحدت فی العمل پیدا ہو جائے گی اور قرآنی حقائق کے سمجھنے کے لیے فکری آزادی بھی قائم رہے گی۔

قرآن فہمی کے سلسلہ میں شرط اول قلب و نگاہ کی بالیدگی ہے

عزیز برادران! ان تمام شرائط سے کہیں زیادہ گہری شرط ایک اور ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک اپنے ذہن کو پہلے سے قائم شدہ نظریات‘ معتقدات اور تصورات سے پاک نہیں کر لیا جائے گا‘ قرآن سمجھ میں نہیں آسکے گا۔ لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (56:79) قرآنِ کریم کا واضح ارشاد ہے ۔یعنی ’’جس کے قلب ونگاہ انسانی خیالات کی آمیزشوں سے پاک نہ ہوں‘ اسے قرآن سے کوئی مس نہیں ہو سکتا۔ انسانی قلب خدا کا مسکن بن نہیں سکتا جب تک اس حریم کعبہ سے انسانی فکر کے تراشیدہ بتوں کو نکال باہر نہ کیا جائے ۔جو شخص پہلے سے کوئی خیال قائم کر کے قرآن کی طرف اس لیے آتا ہے کہ اسے اپنے اس خیال کی کسی نہ کسی طرح تائید مل جائے ‘تو اسے قرآن کی بارگاہ سے بُری طرح پھٹکار پڑتی ہے ۔ مفکر قرآن اقبالؒ (1877-1938)کے الفاظ میں :

بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے !

قرآن فہمی کے سلسلہ میں اہل عرب کی کیفیت اور ہماری تقلید پرستی

دماغ کو پہلے ان بتوں سے پاک کرنا چاہیے اور پھر دیکھیے کہ قرآنِ کریم کس طرح جلوہ پیرا ہو کر اس میں داخل ہوتا ہے! بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اہلِ عرب کی زبان تو عربی ہے۔ وہ بھی قرآن کو صحیح طور پر کیوں نہیں سمجھ پاتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی قرآن کو غیر عرب مسلمانوں کی طرح تقلیداً سمجھتے ہیں یعنی کسی زمانے میں‘ کسی شخص نے‘ جس طرح قرآن کو سمجھا اور وہ آنے والوں کے لیے سند اور حجت بن گیا۔ اس کے بعد یہ سوال ہی نہ رہا کہ قرآنِ کریم میں خود غور وفکر کیا جائے ۔یہ تقلیدی قرآن عربوں کو عربی زبان میں پڑھایا جاتا ہے اور غیر عربوں کو ترجموں کے ذریعے ان کی اپنی زبان میں۔ اپنی فکر سے نہ یہ قرآن کو سمجھتے ہیں ‘نہ وہ ۔اس لیے اس باب میں عرب اور عجم کی بھی کوئی تفریق نہیں رہی۔ تفسیر کی جوکتابیں الازہر میں پڑھائی جاتی ہیں‘ وہی دیو بند یا اب کراچی ملتان اور لاہور کے دار العلوموں میں زیر تدریس رہتی ہیں۔ اپنی فکر وبصیرت نہ یہاں ہے ‘نہ وہاں ۔

قرآنی رموز کو جاننے اور سمجھنے میں صدیوں سے حائل رکاوٹ

قرآن سمجھنے کے لیے سوال اہلِ زبان ہونے کا نہیں ہے۔ سوال زبان دانی کے بعد اہلِ فکر ونظر ہونے کا ہے۔ اپنے غور وفکر اور علم وبصیرت کی رو سے قرآنِ کریم کو سمجھنے میں ایک بہت بڑی دشواری حائل ہوتی ہے۔ ہمارے اسلاف نے یعنی متقدمین نے جو تفسیریں لکھیں‘ اگر وہ ان کے متعلق یہ کہتے کہ یہ ان کا اپنا خیال ہے‘ اپنی رائے ہے‘ اپنا فہم ہے‘ تو ان سے اختلاف کی گنجائش ہو سکتی تھی۔ ایک انسان کے خیال سے دوسرا انسان اختلاف کر سکتا ہے۔ اس میں نہ کوئی گناہ کی بات ہے‘ نہ جرم کی بات لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے جو تفسیر لکھی تو اس کے متعلق یہ کہا کہ یہ رسول اللہ کی بتائی ہوئی تفسیر ہے۔ ہمارے ہاں سب سے پہلی قرآنِ کریم کی تفسیر امام طبرؒ ی٭(16) کی تفسیر کہلاتی ہے۔ وہ بھی نبی اکرم کی وفات کے دو اڑھائی سو سال بعد تیسری صدی ہجری میں ہوئے ہیں ۔یہ پہلی مفصل قرآن کی تفسیرسمجھی جاتی ہے۔ پھر انہوں نے کیا یہ ہے کہ ہر آیت کی تفسیر کے متعلق لکھا یہ ہے کہ یہ نبی اکرم کی بیان فرمودہ تفسیر ہے۔ تب ہوا یہ کہ وہ طبری کی تفسیر نبی اکرم کی ارشاد فرمودہ تفسیر قرار پا گئی اور اس کے بعد آپ سوچیے کہ کس کی جرأت ہے کہ اس سے اختلاف کر سکے۔ جس تفسیر کے متعلق کہا جائے کہ وہ نبی اکرم کی ارشاد فرمودہ ہے‘تو پھر وہ کون مسلمان ہے جو اس کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی کہہ سکنے کی جرأت کر سکے۔ چنانچہ اس کے بعد آج تک جتنی تفسیریں لکھی گئیں ‘ ان میں الفاظ کا فرق ہو گا‘ اندازِ بیان کا فرق ہو گا‘اسلوب کا فرق ہو گا‘ تفصیل کا فرق ہو گا لیکن بنیادی طور پر معنویت کے اعتبار سے اس سے کوئی اختلاف نہ کر سکتا تھا ‘نہ کسی نے کیا ہے۔

امام طبری ؒ اور امام بخارؒ ی کی محنت کے ماحصل کا نتیجہ

یہ ساری تفسیریں جو ہزار سال کے زمانے میں لکھی گئی ہیں‘ یوں کہیے کہ امام طبریؒ کی تفسیر پر طرحی غزلیں ہیں‘ لیکن میں ابھی عرض کروں گا کہ وہ جو آیات کی تفسیر انہوں نے لکھی ہیں‘ وہ نبی اکرم کی نہیں ہیں‘ وہ روایات پر مبنی ہیں اور روایات کے متعلق میں ابھی عرض کروں گا کہ وہ کس طرح سے وجود میں آئیں اور ان کے متعلق کوئی شخص بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ وہ فی الواقع نبی اکرمﷺ کی ہیں۔ صورت تو یہ ہوئی لیکن اس سے امت کو جو نقصان پہنچا‘ وہ یہ ہے کہ ہزار سال پہلے طبرستان کے رہنے والے ایک امام طبریؒ تھے اوردوسرے امام بخاریؒ (194-260ھ)‘وہ بھی بخارا کے ہی رہنے والے تھے- انہوں نے حدیث کا مجموعہ مرتب کیا اور امام طبری نے پہلی تفسیر مرتب کر دی۔ دونوں روایات پر مبنی ہیں‘ دونوں میں سے کسی کے متعلق بھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ رسول اللہ کی ہیں۔

طبریکی تفسیر کے متعلق اختلاف کی ذرا سی گنجائش نکل سکتی تھی اگر نبی اکرم کے زمانے کی صحیح‘ یقینی تاریخ ہمارے پاس موجود ہوتی‘ لیکن وہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ امام طبریؒ نے جہاں قرآن کی تفسیر لکھی‘ وہیں اس زمانے کی تاریخ بھی لکھ دی: تفسیر تیس جلدوں میں‘ تاریخ تیرہ جلدوں کے اندر اور اس میں بھی ایک سند نبی اکرم اور صحابہ کبار کی ہے۔ اب اس تاریخ سے بھی کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کیا یہ کہ جو تفسیر دی‘ اس تفسیر کی تائید میں تاریخی واقعہ لکھ دیا ‘جو تاریخی واقعہ لکھا اس کی تائید میں ایک تفصیلی روایت لکھ دی‘ تو اب اس کے بعد آپ کے ہاں نبی اکرم کے زمانے کی‘ ان کے عقیدے کے مطابق ‘قرآن کی تفسیر بھی مرتب ہو گئی اوراس دور کی تاریخ بھی مرتب ہو گئی۔ اب اس تفسیر سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا‘ اس تاریخ سے بھی کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ا س ہزار سال میں جس طرح سے اسلام کی یہ گاڑی اصلی پٹڑی سے دوسری پٹڑی پہ جا کے پڑ گئی ہے اُس میں بنیادی طور پر جو ذمے داری عائد ہوتی ہے‘ جو بنیادی سبب ہے‘ وہ یہی تفسیر‘ یہی تاریخ ہے‘اسی نہج پر ہر ایک نے تفسیر لکھی تو اس کے بعد‘ جیسا کہ میں ابھی عرض کروں گا‘ کہ یہ جو روایات کی بنیادوں کے اوپر تفسیر یا تاریخ کہی جاتی ہے‘ یہ جوامت کے اندر اتنا زیادہ اختلاف پیدا ہو رہا ہے‘۔اس کی بنیاد ہی یہ ہے۔

نبی اکرم پہ قرآنِ کریم نازل ہوا ۔یہ ظاہر ہے کہ جس انداز سے حضور قرآن کریم کو سمجھ سکتے تھے‘ اس سے بہتر تو ایک طرف ‘ اس سے الگ کون سا مسلمان قرآن کو سمجھ سکتا تھا‘ اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جو تفسیر ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ احادیث کے اندر ہے۔ اب احادیث کی صورت یہ ہے کہ نہ تو نبی اکرمﷺ نے اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب کر کے دیا اور نہ ہی صحابہ کبار نے کوئی مجموعہ مرتب کیا۔ احادیث کے پہلے مجموعے نبی اکرمﷺ کی وفات کے ڈھائی تین سو سال بعد جا کر مرتب ہوئے اور یہ کسی پہلے سے Written Material )تحریری مواد)پر مبنی نہیں ہیں‘ کسی تحریری سند یا مواد پر مبنی نہیں ہیں ‘بلکہ سب زبانی روایات پر مبنی ہیں ۔ امام بخاریؒ نے زبانی روایت کو اپنے مجموعۂ حدیث میں شامل کر لیا۔ جن حدیث کی چھ کتابوں کو سنیوں ٭(17)کے ہاں صحیح تریں قرار دیا جاتا ہے‘ ان سب میں سرِفہرست امام بخارؒ ی کا مجموعہ ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میں نے جب احادیث جمع کرنی شروع کیں‘ تو چھ لاکھ کے قریب روایات میں نے لوگوں سے سنیں۔ ان میں سے میں نے پانچ لاکھ چورانوے ہزار کو تو خود اپنی صوابدید کے مطابق مسترد کر دیا‘ تو قریب چھ ہزار احادیث یا روایات رکھیں۔ ان میں سے بھی اگر جو مکرر بیان کی گئی ہیں‘ کو الگ کر دیا جائے ‘تو وہ قریباً تین ہزار رہتی ہیں‘‘ لیکن یہ جو تین ہزار رہتی ہیں‘ ان میں بھی تو کسی روایت کو نہ نبی اکرمﷺ کی سند ہے‘ نہ صحابہ کبار کی کوئی تصدیق ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ امام بخاری نے کسی سے سنا‘ انہوں نے اپنے باپ سے سنا ‘انہوں نے اپنے استاد سے سنا‘ انہوں نے فلاں سے سنا‘ انہوں نے فلاں سے سنا ‘انہوں نے فلاں صحابی سے سنا‘ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ ہر حدیث کا یہ انداز ہے ۔

آپ سوچیے ‘عزیزانِ من! کہ نبی اکرمﷺ کی وفات کے دو اڑھائی سو سال بعد اس انداز سے ‘ ان اسباب کے ذریعے سے‘ کہ فلاں نے فلاں سے سنا تھا‘ جو روایت بیان کی جائے گی‘ اس میں کہاں تک یقینی طور پر کہا جائے گا‘ کہ وہ رسول اللہ کی ہے۔ اسی لیے یہ جتنی حدیثیں ہیں‘ ان میں سے ہر حدیث کے بعد پہلے کہا جاتا ہے کہ ’’قال رسول اللہ‘‘۔ حضور نے فرمایا اور آخر میں کہا جاتا ہے ’’او کما قال رسول اللہ ‘‘یا جیسے رسول اللہ نے فرمایا ہے۔ یعنی خود یہ لوگ بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ جو کچھ ہم بیان کر رہے ہیں ‘یہ رسول اللہ کی کہی ہوئی ہیں اور پھر یہ رسول اللہ کے الفاظ بھی نہیں ہے ۔ حدیث کہتے ہیں کہ وہ معنوی طور پر آگے آئیں ‘ یعنی ایک شخص نے یہ سمجھا‘ اُس نے آگے سمجھایا ‘اُس نے یہ سمجھا‘ اُس نے آگے سمجھایا اور دو سو سال کے بعد وہ شخص جس نے بیان کیا ‘اسے امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب میں لکھ لیا۔ اس طرح سے یہ احادیث کی چھ مستند کتابیں تو سنیوں کے ہاں ہیں اور اسی قسم کی چار مستند کتابیں شیعہ حضرات کے ہاں ہیں ٭(18)اور کیفیت یہ ہے کہ ایک کتاب دوسری کتاب سے مختلف ہے یعنی خود ایک کتاب کے اندر بہت سے اختلافات ہیں۔ یہ ہیں عزیزانِ من! احادیث کے وہ مجموعے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان میں درج وہ احادیث رسول اللہ کی بیان فرمائی ہوئی ہیں۔

احادیث کے متعلق امام احمدبن حنبل کا فرمان

یہ اس قدر ناقابل اعتماد ہے کہ ان احادیث کے متعلق امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ احادیث کی کتابوں میں تین قسم کی روایات قابل اعتماد نہیں: پیشین گوئیوں سے متعلق‘ لڑائیوں سے متعلق ‘اور تفسیر سے متعلق۔ ان کے اس قول کی تصدیق خود ان تفاسیر سے ہوتی ہے جنہیں نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ مثالیں تو میں‘ اس میں بے شمار دے سکتا ہوں‘ لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں اس وقت اس کی صرف دو ایک مثالیں نہیں بلکہ ایک ہی مثال دینا کافی سمجھتا ہوں ۔وہ پیش کروں گا۔آپ اس سے اندازہ لگا لیجیے گا کہ روایات کی رو سے قرآنِ کریم کے سمجھنے میں کتنی مدد مل سکتی ہے۔

سورۂ احزاب میں ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لااَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ ٰاذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْٓا (33:69)۔ جماعت مومنین سے کہا جا رہا ہے کہ اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ کو بہت ستایا‘ انہیں اذیت دی ‘تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰکو ان کی ان اذیت رسانیوں سے محفوظ رکھا۔ تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کو کس کس انداز سے ستاتے تھے‘ اس کی تفصیل قرآنِ کریم کے متعدد مقامات میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ اس غلام محکوم قوم کو فرعون ٭(19)جیسے مستبد حاکم کی غلامی سے نجات دلا کر‘ وادئ سینا میں لے آئے تھے۔ یہی احسان کچھ کم گراں بہا نہیں تھا۔ اس قوم کو چاہیے تھا کہ قدم قدم پر ان کے شکر گزار ہوتے لیکن ان کی کیفیت یہ تھی کہ وہ قدم قدم پر ان کو اذیت دیتے‘ ان کو تنگ کرتے ۔راستے میں ایک جگہ دیکھا کہ ایک قوم ایک بت کی پرستش کرتی ہے‘ توحضرت موسیٰ کا دامن پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ہمیں بھی ایسا ایک بت بنا دیجیے تاکہ ہم اس کی پرستش کریں۔ کبھی ان کی کیفیت یہ ہے کہ پانی کی تنگی ہوئی ہے‘ تو جدھر گئے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ موسیٰ ؑ تم ہمیں کہاں مارنے کے لیے لے آئے ہو۔ وہاں ان کو من وسلویٰ کھانے کو ملتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں تو یہاں بیٹھے ہوئے مصر میں‘ جو ہم اس قوم کی‘ اپنی حاکم قوم کی‘ ہنڈیاں پکایا کرتے تھے ‘ اس کی لذتیں یاد آتی ہیں۔ ہمیں دالیں اور پیاز اور لہسن اور سبزیاں‘ یہ کچھ دو۔ یہ من وسلویٰ یہ ہم سے روز روز نہیں کھایا جاتا۔

آپچند دن کے لیے ذرا کہیں باہر گئے‘ سامری٭(20) نے ایک گؤسالہ بنایا اور انہوں نے اس کی پرستش شروع کر دی۔ وہ اس طرح ایک ایک قدم پر حضرت موسیٰ کو ستایا کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ان سے کہا کہ ٰیقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ (61:5)۔ اے قوم! میں نے تمہارے ساتھ کون سی دشمنی کی ہے جس کی وجہ سے تم مجھے قدم قدم پر اس طرح ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف خدا کا رسول ہوں‘ اس کے پیغامات تم تک پہنچاتا ہوں‘ تمہیں تو اس کے لیے احسان مند ہونا چاہیے تھا لیکن تمہاری کیفیت یہ ہے کہ ایک ایک قدم پر مجھے تنگ کرتے ہو‘ اذیتیں پہنچاتے ہو‘ اسی لیے حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تھی کہ اے اللہ! میں اور میرا بھائی بس ہم یہ دونوں ہیں‘ جو اپنے ذمے دار ہیں‘ ورنہ یہ قوم فاسق ہے۔جو کچھ یہ کر رہی ہے اس کی ذمے داری ہم پہ عائد نہیں ہوتی۔

میں نے یہ تفصیل اس لیے بیان کی کہ یہ معلوم ہو جائے کہ وہ جو قرآنِ کریم نے کہا تھا کہ اے جماعت مومنین !تم حضرت موسیٰ کی قوم کی طرح نہ ہوجانا‘ انہوں نے انہیں بڑا ستایا تھا اور ان کی اذیت رسانیوں کی تفصیل خود قرآن نے دی ہے‘ اس کی وضاحت ہوجائے۔

حضرت موسیٰ کے متعلق ایک روایت

اب آپ دیکھیے کہ اس آیت کی تفصیل روایات کی رو سے کیا ملتی ہے؟ یہ بخاری شریف کی روایت ہے ۔غور سے سنیے گا‘ عزیزانِ من! حضرت ابوہریرہ t نبی اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل برہنہ غسل کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھا جاتا تھا اور حضرت موسیٰ تنہا غسل کیا کرتے تھے ۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ واللہ !موسیٰکو ہم لوگوں کے ہمراہ غسل کرنے سے سوا اس کے کچھ مانع نہیں کہ وہ ۔۔۔ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰ غسل کرنے گئے اور اپنا لباس پتھر پر رکھ دیا۔ وہ پتھر ان کا لباس لے بھاگا اور حضرت موسیٰ بھی اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر !میرے کپڑے دے دے‘ اے پتھر! میرے کپڑے دے دے ‘یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ کی طرف دیکھ لیا اور کہا واللہ !موسیٰ کو کچھ بیماری نہیں ہے اور پتھر ٹھہر گیا۔ موسیٰ نے اپنا لباس لے لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ tکہتے ہیں کہ خدا کی قسم! حضرت موسیٰ کی مار سے چھ یا سات نشان اب تک اس پتھر پر داخل ہیں۔

عزیزبرادران! یہ بخاری شریف کی جلد اول کی روایت ہے جو قرآنِ کریم کی اس آیت کی تفسیر میں بیان کی گئی ہے جس میں قرآنِ کریم نے جماعت مومنین سے کہا تھا کہ تم قوم موسیٰ کی طرح نہ ہو جانا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ کو بہت ہی اذیتیں دی تھیں۔ اس روایت یا اس حدیث کے اندر اس اذیت رسانی کی تفسیر بیان ہو رہی ہے۔کس قسم کی ہیں وہ تفاسیر جو احادیث کے اندر ہمیں ملتی ہیں۔عزیزانِ من ! ان کاآپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تفسیر روایات کی رو سے کی جانی چاہیے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ حالانکہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ روایات یا احادیث رسول اللہ کی نہیں ہیں۔ یہ آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور زبانی روایتیں کوئی دو سو اڑھائی سو سال کے بعد جمع کی گئی تھیں۔ اب کوئی نہیں کچھ کہہ سکتا کہ ان میں کتنا حصہ حضور کا ہے اور کتنا کچھ دوسروں کا ملایا ہوا ہے۔

احادیث کے مجموعوں کے متعلق میرا مسلک یہ ہے کہ ان میں جو باتیں قرآن کے مطابق ہیں‘ انہیں ہم صحیح تسلیم کرسکتے ہیں لیکن جو قرآن کے خلاف ہیں یا جن سے حضور کی ذاتِ گرامی پر کسی قسم کا طعن پڑتا ہے‘ ان کے متعلق ہم کہہ دیں گے کہ وہ رسول اللہ کی حدیثیں نہیں ہو سکتیں۔ پھر سن لیجیے کہ میں رسول اللہ کی کسی حدیث کا انکار نہیں کرتا۔ متذکرہ بالا مواد کی رو سے غلط روایات کے متعلق کہتا یہ ہوں کہ وہ رسول اللہ کی ہو نہیں سکتیں‘ ورنہ جو احادیث قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہیں ‘ میں نے کبھی بھی اور کہیں بھی ان کا انکار نہیں کیا۔

عزیزانِ من! یہ ہیں سورۃ الفاتحہ کے ان دروس کے اسباب جو آپ کے سامنے پیش کیے گئے اور یہی ہے ان کی پہلی تعارفی نشست۔ اب سورۃ الفاتحہ ہم اگلے درس میں لیں گے۔

 

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ط

Re Typed by Muhammad Aqeel Haider

حواشی

(1)٭ اکتوبر 1979ء میں پرویز صاحب دروس قرآن کے دوسرے دور میں سورۃ لقمان تک پہنچ گئے تھے ۔ ان ایام میں باہر کے احباب جو سورۃ الفاتحہ کے دروس پہلے دور کی کیسٹس کے ذریعہ سنا کرتے تھے‘ ان کا تقاضا تھا کہ پرویز صاحب اپنی آواز میں سورۃ الفاتحہ کے دروس کو دوبارہ ریکارڈ کروا دیں کیونکہ کیسٹس کی آواز کی کوالٹی میں کافی فرق پڑگیا تھا۔ اس طرح پرویز صاحب نے دوبارہ سورۃ الفاتحہ کے دروس ریکارڈ کرائے اور چونکہ 1968ء کے بعد 1979ء تک ان کے فہم و بصیرتِ قرآن میں بھی اضافہ ہوگیا تھا اس لیے موجودہ دروس کی تعداد نو ہے جب کہ پہلے دور کے دروس قرآن کی تعداد آٹھ تھی۔

(2)٭ پاکستان کے قیام کے بعد‘ پرویزؒ دہلی اور شملہ سے بسلسلۂ ملازمت کراچی تشریف لائے۔1955ء میں قبل از وقت پنشن حاصل کر لی تاکہ وہ اپنے ہمہ اوقات و توجہات اپنی زندگی کے قرآنی مشن کے فروغ کے لیے وقف کر سکیں۔ اپریل 1958ء میں لاہور تشریف لے آئے اور موجودہ دارالقرآن و درسگاہ تعمیر ہو کر جولائی 1958ء سے سلسلۂ درس شروع ہوا۔ ابتداءً درس کے موضوعات اسلام کے بنیادی تصورات اور اصطلاحات رہے‘ جن کے بغیر مسلسل درسِ قرآن کی تفہیم آسان نہ ہوسکتی تھی۔ پہلا باقاعدہ درسِ قرآن ستمبر 1960ء میں شروع ہوا۔ جس کی تکمیل ایک مدتِ طویل یعنی سوا سات سال کے بعد اتوار 31دسمبر 1967ء کو بخیر و خوبی عمل میں آئی۔ (مرزا محمد خلیل: جشنِ نزولِ قرآن وتکمیلِ درس قرآن: استقبالیہ ‘ مجلہ طلوع اسلام‘ فروری 1968ء‘ ص ص ۔ 9تا 11)

(3)٭ میں نے اس سلسلہ (درسِ قرآن) کو 1950ء کے قریب کراچی میں شروع کیا تھا۔ یہ وہاں مسلسل جاری رہا تآنکہ میں 1958ء میں لاہور منتقل ہو کر آگیا اور اس سلسلہ کو یہاں جاری کر دیا۔ ابتدائی دو سال قرآنِ کریم کے بنیادی تصورات پیش کرنے میں صرف ہوگئے اور اس کے بعد1960ء سے‘ اس کا مسلسل درس شروع کر دیا گیا۔ (پرویزؒ : جشنِ نزولِ قرآن و تکمیلِ درسِ قرآن: خطاب‘ موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگاہِ خیال‘ مجلہ طلوع اسلام‘ فروری 1968ء ‘ ص ص 12تا 19)

(4)٭ سامعین درس (اوّل) کا اصرار تھا کہ محترم پرویزؒ اپنے اس درس کا دوسرا دَور شروع کر دیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس قسم کے طویل و عریض پروگرام کو التزاماً جاری رکھنا بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے احباب کے اس تقاضائے شوق کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا لیکن اپنی صحت کی بحالی کے لیے صرف دو ماہ کے وقفہ کی ’’درخواست کی‘‘ جس پر احباب نے بادلِ ناخواستہ رضا مندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ اب اس درس کا ازسرِ نو سلسلۂ وسط مارچ سے شروع کیا جائے گا۔ (حوالہ : طلوعِ اسلام فروری 1968ء‘ ص 8 (ایک خصوصی اعلان) نیز مجلہ طلوعِ اسلام اپریل 1968ء، ص 17)

(5)٭ اس سائنسدان کا نام Sulivan (سلیوان) ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: We only read the Book of Nature, we Can`t write it (ہم صحیفہ فطرت کو پڑھ سکتے ہیں‘ لکھ نہیں سکتے)۔ اس کی تشریح کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان پارہ 29(مکمل)‘ ادارہ طلوع اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور 2006ء ص ص۔ 510تا 312۔

(6)٭ غیریّت‘ بے گانگی

(7)٭ قرآنِ کریم کے خلاف مزید سازشوں (Conspiracies) کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان سورۃ حج‘ ادارہ طلوعِ اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005ء‘ ص ص 221تا 242۔

(8)٭ Parchment: بھیڑوں‘ بکریوں‘ میمنوں یا بچھڑوں کی کھال جسے اس طرح تیار کیا جائے کہ اس پر لکھا جاسکے۔ (حوالہ ڈاکٹر جمیل جالبی (مدیر): قومی انگریزی اردو لغت‘ مقتدرہ قومی زبان‘ اسلام آباد ‘ 1992‘ ص 1412) نیز۔۔۔

The skin of a sheep, or goat, prepared for writing or painting upon A written text. stiff, durable paper made in imitation of the material. Pergamum in Western Turkey (where it was first used as a substitute for Papyrus) (Ref. Reader`s Digest (1990) Universal aictionary. London: The Readers Digest Association Limited. pp.1124-1125)

(9)٭ Richard maurice Bucke.

(10)٭ ان نکات کی مزید تشریح و تبئین کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان‘ سورۃ انبیاء‘ ادارہ طلوعِ اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005‘ ص ص 20-21،‘ بالخصوص انہی صفحات کے فٹ نوٹ (1,2) 20اور 21(3-4)۔

(11)٭ Imam Raghib AL-Isphahani of Persia (1327-

(12)٭9A.D) (He was) beheaded. (Re. Some Quranic Voices by Shabbir Ahmed, M.D. Florida, USA, Through Website sent on Saturday, April 01, 2006, 6:03pm on the Subject. 2: Analysis of Criticism Against Quran upholders (Questions/Answers): Website Islamdawn.

(13)٭ مزید لغت کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان سورۃ طہٰ‘ ادارہ طلوعِ اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور 2005ء‘ ص ص 154-55اور انہی صفحات کا فٹ نوٹ 2۔

(14)٭ قرآنی موضوعات کو تبویب کی شکل میں پیش کرنے کے موضوع کے متعلق مزید وضاحت کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان سورۃ حج‘ ادارہ طلوعِ اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005ء‘ ص ص 170تا 171۔

(15)٭ ان کی مزید تشریح و وضاحت کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان انتیسواں پارہ ‘ ادارہ طلوعِ اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2006ء

(16)٭ ان نکات کی وضاحت کے لیے دیکھیے: مطالب الفرقان فی دروس القرآن سورۃ بنی اسرائیل‘ ادارہ طلوع اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2004ء ‘ ص ص 30تا 31نیز فٹ نوٹ 1

(17)٭ ان نکات کی وضاحت کے لیے دیکھیے: مطالب الفرقان فی دروس القرآن سورۃ بنی اسرائیل‘ ادارہ طلوع اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005ء ‘ ص ص199تا 218، نیز فٹ نوٹ 2`1 (200)۔

(18)٭ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: : مطالب القرآن فی دروس الفرقان سورہ حج‘ ادارہ طلوع اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005‘ ص ص۔ 200-242۔

(19)٭اس کشمکش کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان‘ سورۃ طہٰ‘ ادارہ طلوع اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005ء

(20)٭ بچھڑے (گؤ سالہ) اور سامری کے لیے دیکھیے: مطالب القرآن فی دروس الفرقان ، سورۂ طہٰ‘ ادارہ طلوع اسلام رجسٹرڈ‘ لاہور‘ 2005ء ص ص 242اور 250اور فٹ نوٹ 1 (250)۔